Sunday, September 11, 2016

تہذیبی تبدیلیوں کے دور میں ادب کا کردار

تہذیبی تبدیلیوں کے دور میں ادب کا کردار
قمر صدیقی

اگر یہ کہاجائے کہ کرۂ ارض ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور یہ چھوٹی سی جگہ بھی اب مسلسل سمٹ رہی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ گلوبل ولیج کی سوچ تو سٹیلائیٹ دور کے شروعات کی بات تھی۔ اب انسان 3Gاور4Gکے اس دور میں سائبر اسپیس کا سند باد بن چکا ہے۔ بہت پہلے بل گیٹس نے کہا تھا کہ :

’’انٹر نیٹ ایک تلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ، اس میں ڈوب جائیں گے۔‘‘

بل گیٹس کی بات خواہ غلط ہو یا صحیح حقیقت یہ ہے کہ آج ہر جگہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی حکمرانی ہے۔ گھر ہو یا دفتر ، علم ہو یا علاج، معیشت ہو یا ثقافت اور فن ہو یا تفریح .........ہر شعبۂ حیات میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل صاف نظر آتا ہے اورلطف کی بات یہ ہے کہ مختلف ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے مزید نئی نئی ٹیکنالوجیزسامنے آرہی ہیں ، بلکہ دیوندر اِسّر کے لفظوں میں تو ساری دنیا گھر کے آنگن میں سمٹ آئی ہے اور آنگن پھیل کر ساری دنیا کی وسعت سے ہم کنار ہورہا ہے۔ الیکٹرانک مشینوں کو کہیں سے بھی ہدایتیں دی جاسکتی ہیں اور انھیں حرکت میں لایا جاسکتا ہے۔ جب ہم گھر پہونچیں گے تو سب کچھ ہماری ضرورت اور ہدایت کے مطابق تیار ہوچکا ہوگا۔ پہلے زمانے کا شاعر دیواروں سے باتیں کرتا تھا ، اب دیواریں شاعروں سے باتیں کریں گی۔ شاید ہمارے غم و انبساط میں بھی شریک ہوں گی!۔ذہین ،مکین ہی نہیں ذہین، مکان بھی ہوں گے۔ حساس دل بے حس تجربہ گاہوں میں تیار کئے جائیں گے اور منجمد سڑکیں متحرک ہوجائیں گی۔ انسان حادثات سے بچ جائے گا۔ کاریں آپ کو ڈرائیو کریں گی اور الیکٹرانک آلات آنے والے خطرات سے آپ کو آگاہ ۔ دل کا دورہ ہو یا سڑک حادثہ ،اس پیش خبری کے باعث ٹل جائے گا۔ کلوننگ سے پیدا ڈولی کوبھول جائیے، اب بھیڑیں فیکٹریوں میں تیار ہوں گی۔ جینیٹک انجینئرنگ کی مددسے صرف چار بھیڑوں سے اتنی مقدار میں انسولین تیار کی جاسکے گی جو دنیا بھر کے ذیابطیس کے مریضوں کے لیے کافی ہوگی۔ کمپیوٹر انسانی ذہن کے حامل ہوں گے اور انسان کمپیوٹر کی مانند کام کریں گے۔ انسان اور حیوان کے اعضا ایک دوسرے کے جسم میں منتقل کیے جارہے ہیں۔ ذی روح اور غیر ذی روح میں فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا ایک ریلا ہمارے شب وروز کو اپنے زور میں بہائے لیے جارہا ہے اور اس بہاؤ میں عا لمیت ، قومیت، مقامیت، رنگ، نسل ، ذات ، طبقہ، فرقہ، مذہب اور جنس کے علاوہ مغرب اور مشرق کے تفاوت کے ساتھ ساتھ نہ جانے کن کن علوم ، بشریات ، سماجیات ، تاریخ ، فلسفہ ، سیاست اور جانے کیا کچھ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگا ہے۔تہذیبی اور تکنیکی سوچ ایک نئی حسیت کی پرورش کررہی ہے۔ میڈیا یعنی ٹی وی ، کمپیوٹر وغیرہ اس سوچ کو پھیلانے کے ہتھیار ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اطلاعات کی برق رفتار ترسیل نے بڑی سہولیات پیدا کردی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ اطلاعات کی اس ترسیل کے ساتھ محض خبروں یا خبروں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ ہی کی ترسیل نہیں ہوتی بلکہ یہ الفاظ اپنے ساتھ اپناخیال اور اپنی فکر بھی لاتے ہیں ۔ اس خیال اوراس فکر کے رد و قبول کے اختیار کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کے ذریعے اتنے تواتر اورشدت کے ساتھ مختلف طرح کے اقدار و خیالات ہم تک پہنچ رہے ہیں کہ ایک طرح کی ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری اقدار سے مختلف اقدار ٹکرا رہی ہیں۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے یہ انتشار اور بحران تہذیب کے باطن میں اتر گیا ہے۔

چونکہ معاشرے میں تبدیلیاں بڑی سرعت کے ساتھ رونما ہورہی ہیں لہٰذاان تبدیلیوں کے اثرو نفوذ کے تعلق سے کوئی حتمی پیشن گوئی ممکن نہیں لیکن یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ یہ تہذیبی اتھل پتھل گلوبلائزیشن کی یک رخی تہذیب اور تیسری دنیا کی تہذیبی رنگا رنگی کے مابین جاری ثقافتی سرد جنگ کا نتیجہ ہے۔ برٹش ماہرِ سماجیات اسٹورٹ ہال نے اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’ گلوبلائزثقافت کی سب سے اہم خصوصیت اس کے یک رخے پن کی صلاحیت ہے۔یہ تہذیبوں کی تکثیریت کو ایک بڑے ڈھانچے میں سمولیتی ہے۔ ایسی ثقافت خود کو ہمیشہ مرکز میں رکھتی ہے اور باقی سب کو حاشیے پر رکھتی ہے یا غیر Otherکی شکل میں پیش کرتی ہے۔‘‘

گلوبلائز ثقافت کے اس دور میں ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ مغرب سے طرز زندگی درآمد کرنے کا مسئلہ ایک خطرے کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔ اس تہذیبی درآمدات کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی تہذیب سے منقطع ہوگئے ہیں۔ مشرقی تہذیبوں کے لیے مغرب کی یہ ثقافتی یلغار یک سطحی نہیں ہے بلکہ ایشائی تہذیب کو ایک ایسی چومکھی تہذیبی جنگ کا سامنا ہے جس کی داغ بیل انگریزی سامراج کے زمانے میں ہی پڑ چکی تھی۔ ہم میں سے بہتوں کو حیرت ہوگی کہ کارل مارکس بھی ہندوستانی تہذیب پر انگریزی تہذیب کے غلبے کا کھلا حمایتی تھا ۔ 25؍ جون 1952ء کے ’’نیویارک ڈیلی ٹریبون ‘‘ میں ’’ہندوستان میں برٹش حکومت‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ اُس کی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ ہندوستانی معاشرے کی بالکل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ کم ازکم کوئی معلوم تاریخ نہیں ........انگلستان کو ہندوستان میں دوہرا فریضہ انجام دینا ہے۔ ایک تخریبی اور دوسرا نو اصلاحی۔ قدیم ایشیائی معاشرے کو فنا کرنے اور مغربی سماج کی بنیاد رکھنے کا.......انگلستان کی مداخلت نے ہندوستان کے ان چھوٹے چھوٹے نیم وحشی ، نیم مہذب گروہوں کی معاشی بنیادوں کو تہس نہس کرکے ایسے سب سے بڑے سماجی انقلاب کو رونما کیا اور سچ تو یہ ہے کہ ایشیا میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ‘‘

کارل مارکس کے اس بیان کو ہم آج کے افغانستان ، عراق اور لیبیا پر بھی منطبق کرسکتے ہیں۔ وہاں جمہوریت اور آزادی کے نام پر ظلم کا جو ننگا ناچ کھیلا گیا ۔ اس نے سائنس و ٹیکنالوجی کی اس برتری والی دنیا کو عہد قدیم کی وحشی دنیا کے مقابل لاکھڑا کردیاہے۔

دراصل تہذیبی آدان پردان کے قدیم اور روایتی سلسلے کو مغربی اقوام کی طاقت پرستی اور تعصب نے پوری دنیا کے لیے ایک تہذیبی بحران میں تبدیل کردیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو معروضیت ، تعقل پسندی اور ترقی کا جواز پیش کیا ہے انسانی فکر و احساس اس سے بے نیازی نہیں برت سکتا۔ ظاہر ہے کہ کمپیوٹر ، انٹر نیٹ ، میڈیا اور انسانیت کو فیض پہنچانے والی دوسری ٹیکنالوجیز سے کوئی انسان آنکھ موڑنا پسند نہیں کرے گا، لیکن ٹیکنالوجی کوکسی مخصوص تہذیب کو وسعت دینے کے لیے استعمال کرنا شاید ہی کسی کو قابلِ قبول ہو۔ لہٰذا ایک طرف تو ساری دنیا میں ایک مخصوص تہذیب کورواج دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف امریکی مفسر سیموئیل ہٹینگ ٹن ’’تہذیبوں کے تصادم ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔

ایسی صورتِ حال میں ادب کو کون سا رول ادا کرنا ہے؟ اور تبدیلی کے اس عمل میں ادیب کا کردار کیا ہونا چاہئے یہ طے کرنا تو خیر مشکل ہے۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ تبدیلی کے اس عمل میں ادب اور ادیب دونوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور اگر ادیب کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوجائے تو وہ یقیناً اپنے دور کا امیر خسرو، میر و غالب، آتش و مصحفی، نظیر و انیس ، حالی و داغ، اقبال و فیض بن جاتا ہے۔ ان تمام نابغۂ روزگارشخصیات کی تخلیقی جودت یہ تھی کہ انھوں نے روحِ عصر کو اپنے اندر سمویا اور تخلیقی تجربہ کشید کیا۔ادب خارجی واقعات کا محرر نہیں، سو وہ واقعات کی تہہ میں خوابیدہ اسرار و تجربات کو اظہار کے سانچوں میں لازوال کرتا ہے۔ گویا اس کا منصب وقت اور عارضی کو ابدی اور لافانی میں ڈھالنا ہے۔ اس طرح وہ معاشرے کا واحد رکن ہے جو ہر طرح کے موسم اور حالات میں اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری پر متمکن ہے کیونکہ ادیب جغرافیائی حدود میں زندہ رہتے ہوئے بھی عالمی اور آفاقی وجود رکھتا ہے۔

***
Back to Conversion Tool

1 comment: