Tuesday, September 20, 2016

اختر الایمان کی شاعری

اختر الایمان کی شاعری
قمر صدیقی

اختر الایمان جدید اردو شاعری کے ایسے منفرد و ممتاز شاعر ہیں ، جن کی شاعری جدید اردو ادب میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔نہ صرف ان کے شعری تجربے بلکہ ان کی نظموں کی تکنیک نے بھی پوری جدید اردو شاعری کو متاثر کیاہے ۔ان کی شاعری کا بنیادی رویہ تہذیب اور معاشرے میں سماجی اور نفسیاتی اقدار کی کشمکش اور تصادم سے عبارت ہے۔شکست و ریخت اور داخلی و خارجی ہیجانات کے عہد میں اخترالایمان نے انسانی زندگی میں نابرابری، ذہنی دباؤ اور جذباتی تنہائی کے تجربوں کو شعری پیکروں میں ڈھال کر اردو شاعری کو ایک نئے تجربے سے روشناس کرایا ہے ۔
اختر الایمان ۱۹۱۵ء میں اترپردیش کے مردم خیز ضلع بجنور کے قصبہ نجیب آباد میں پیدا ہوئے۔انھوں نے دلی کے ذاکر حسین کالج سے گریجویشن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۵ء میں وہ ممبئی آکر فلم انڈسٹری میں بطور اسکرپٹ رائٹر منسلک ہوگئے۔ انھوں نے تقریباً ۴۰ فلموں کے اسکرپٹ لکھے جن میں قانون ، وقت، پھول اور پتھر، ہمراز، گبن، میرا سایا، پتھر کے صنم ، آدمی، داستان، دھند، داغ اور روٹی وغیرہ فلمیں اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلموں میں شمار ہوتی ہیں ۔ اختر الایمان نے ایک فلم ’’لہو پکارے گا‘‘ میں بطور ڈائریکٹر اپنی خدمات پیش کیں۔
اختر الایمان کے کل ۸ شعری مجموعے شائع ہوئے۔ پہلا مجموعہ ’’تاریک سیارہ‘‘ ۱۹۴۳ء میں ، جبکہ اس کے بعد بالترتیب گرداب (۱۹۴۶ء)، آب جو(۱۹۵۹ء)، یادیں (۱۹۶۱ء)، بنت لمحات (۱۹۶۹ء)، نیاآہنگ(۱۹۷۷ء)، سر و ساماں (۱۹۸۳ء) اور زمین زمین (۱۹۹۰ء) میں شائع ہوئے۔مجموعۂ کلام ’’یادیں‘‘ کے لیے انھیں ۱۹۶۲ء میں ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازا گیا تھا۔اختر الایمان کے انتقال کے بعد آخری مجموعۂ کلام ’’زمستاں سردمہری کا‘‘ اُن کی اہلیہ سلطانہ ایمان اور بیدار بخت نے مرتب کرکے شائع کیا۔اختر الایمان کی سوانح ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی۔
اردو نظم نگاری میں اختر الایمان کی شاعری ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دراصل حلقۂ ارباب ذوق نے نئی اردو نظم کو فروغ دینے کی جو کوششیں کیں اسے اخترالایمان جیسے شعرا کی وجہ سے استقامت حاصل ہوئی۔ حلقۂ ارباب ذوق سے بہت پہلے اردو نظم کی ہیئت و اسلوب میں تبدیلی کا آغاز مولوی محمد حسین آزاد اور ان کی رفقا نے شروع کیاتھا ۔ مولانا الطاف حسین حالی، اسمعیل میرٹھی ،سرور جہان آبادی، عبد الرحمن بجنوری جیسے شعرانے اس نئی طرز کی نظم نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔ نئی اردو نظم میں اجتہاد کی انفرادی مثال عظمت اللہ خاں نے پیش کی اور صوری طور پر شاعری کو وہ اسلوب مہیا کیا جس پر چل کرجوش، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، روش صدیقی، حامد اللہ افسر اور اثر صہبائی وغیرہ نے اردو نظم کو نئی ر۱ہوں سے متعارف کروایا۔ ترقی پسند تحریک نے نظم کو اپنے حصولِ مقاصد کا اہم وسیلہ سمجھا لہٰذا تحریک کے زیر سایہ اردو نظم میں خطابت کی گھن گرج اور بھاری بھرکم لہجے کا رجحان پیدا ہوا۔ حالانکہ اسی دور میں ن۔م۔ راشد اور اخترالایمان نے ترقی پسندی کے اس غالب رجحان کے علی الرغم نظم میں معنویت کو بنیاد بناکر شاعری کی۔ہرچند کہ اختر الایمان کی شاعری کا بھی بیشتر حصہ سیاسی و معاشرتی شعور کا حامل ہے تاہم انھوں نے ترقی پسندوں کی طرح اپنی نظم کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا۔ لہٰذا ان کی نظمیں ترقی پسند نظم نگاروں کے برخلاف لفظوں کی کثرت اور نمائش سے اجتناب کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں۔خود اختر الایمان اپنے اس شعری رویے کی بابت تحریر کرتے ہیں:
’’اِدھر کچھ مدت سے مجھے اس بات کا شدید احساس ہونے لگا ہے کہ جس معیار کا انسان پہلے پیدا ہوتا تھا اب نہیں ہوتا۔ اس میں کمی آگئی ہے۔ وسیع الخلق ، وسیع النظر، وسیع المشرب، وسیع الظرف ، وسیع الخیال، متواضع اور بردبار ، جیو اور جینے دو پر ایمان رکھنے والا، وہ کم ہوگیا ہے۔
ظاہری وجہ تو اسباب و آلاتِ معیشت ہی ہوں گے مگر زندگی میں لالچ کیوں بڑھ گیا۔ مانا مادّی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے والے آلات اور ذرائع بدل گئے اور زمین چھوٹی ہوگئی۔ آبادی بھی بڑھ گئی مگر روٹی تو انسان پہلے بھی کماتا تھا ، اُس وقت بھی آسانی سے میسّر نہیں آتی تھی۔ کاسۂ گدائی تو اُس وقت بھی بہت لوگوں کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ اس سے پہلے بھی طالبِ علم اور ودھیارتی مانگ کر کھانا کھاتے تھے اور علم کی طلب میں اپنی ذات کو بھی بھول گئے تھے۔ مختصر یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، اتنے بڑے پیمانے پر، کہ انسان اپنی روٹی اور آسائش دوسروں کی تخریب میں سمجھے۔ آلاتِ حرب اور گولہ بارود بیچنے کے لیے منڈیاں ڈھونڈنے کی کوشش میں زمین کے کُرے کو آگ کا گولہ بنادے۔ سارا انسانی شعور اور تہذیبی ورثہ بالائے طاق رکھ کر حیوانی جبلت اتنی حاوی کرلے کہ بربریت کی پچھلی ساری مثالیں پھیکی پڑ جائیں۔ تمام اخلاقی قوانین لبادے کی طرح استعمال ہونے لگیں۔ ضرورت ہوئی تو پہن لیا نہ ضرورت ہوئی اتار کر پھینک دیا۔ اور بس ۔
اب بار بار سوچنا پڑتا ہے لبنان ، فلسطین ، لنکا، افغانستان ، جنوبی افریقہ، ہندوستان ، پاکستان کو واقعی ایسے مسائل درپیش ہیں جن کا حل نہیں یا یہ بدامنی ، گولہ بارود اور کوکین بیچنے والے دلالوں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں اور اگر ان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں تو ان کے خریداروں کی عقل کو کیا ہوا؟ حب الوطنوں اور پیغمبروں کی ساری محنت ہی برباد ہوگئی۔‘‘(۱)
اختر الایمان نے اپنی نظموں میں ان خیالات کو تمام تر فنی لوازمات کے ساتھ برتا ہے۔ مثال کے طور پر اُن کی نظم ’’کفّارہ‘‘ ملاحظہ ہو:
اس جہاں میں بارہا آیا ہوں میں
طے نہیں پایا ابھی تک کیا ہوں میں
رینگتے پھرنا زمیں پر اور کبھی پرواز میں
جلوہ گر ہوتا رہا ہوں مختلف انداز میں
خار و خس میں سبزہ و گل میں کبھی
برگِ نے میں سرو و سنبل میں کبھی
خاک سے اُٹھ کر بگولوں میں اُڑا پھرتا رہا
مینہ بن کر بادلوں سے خاک پر بَرسا کیا
وسعتِ صحرا میں سورج کی تپش سہتا رہا
پانیوں میں تیز رو دریاؤں کے بہتا رہا
ہر طرح کے رنگ میں رَمتا رہا، آیا گیا
ہر نئی صورت میں میری ذات جاں افزا ہوئی
آدمی کی شکل میں آیا زمیں رُسوا ہوئی
مذکورہ نظم ایک طنز آمیز احتجاج ہے۔ نظم میں زندگی کے اسرار سے پردہ اٹھانے کوشش نظر آتی ہے۔ نظم ایک ایسے اسرار یا Mysteryکی صورت آگے بڑھتی ہے جس کا پردہ آخری مصرعے میں اٹھتا ہے۔اختر الایمان کی شاعری ایک پراسرار تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے، یہ بھی ایک اسرار ہے جومسائل پر تاثرات تو عطا کرتی ہے ، مسائل پیش نہیں کرتی۔اختر الایمان کی اس نظم میں ’’شعریت‘‘ کا فقدان ہے، بظاہر شخصیت جتنی بے چین نظر آ رہی ہے، داخلی طور پر اتنی بے چین اور مضطرب نہیں ہے۔ اختر الایمان نے بارہا کہا ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر نظموں میں روکھا پن رکھا ہے۔ مثلاً:
’’ جب میں شاعری میں کھردرے پن کا ذکر کرتا ہوں تو اس کا مطلب اخباری زبان نہیں ہوتا۔ کلامِ موزوں بھی نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہوتا ہے بندھے ٹکے مروجہ استعارے اور تشبیہات، بیان کے پیش افتادہ انداز اور مضامین سے گریز۔‘‘(۲)
یہی کھردرا پن اختر الایمان کی شاعری کی پہچان ہے۔مذکورہ نظم ہی طرح کھردری اور تلخ حقیقتوں اور معاشرتی اور نفسیاتی ہیجانوں کو اپنے جذبہ اور احساس اور وجدان سے ہم آہنگ کر کے اختر الایمان نے مزید کئی خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ ایک لڑکا، آگہی ، خمیر ، پگڈنڈی ، بنتِ لمحات، اتفاق ، بے تعلقی ، اظہار، جمود،اور اب سوچتے ہیں وغیرہ اختر الایمان کے شعری اسلوب کی نمائندہ نظمیں ہیں۔
فراق گورکھپوی نے اختر الایمان کی شاعری کو خون کی دھار میں ڈوبی ہوئی شاعری کہا تھا۔ لیکن خود اختر الایمان اپنے تصور شعر کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ ’’جہاں تک انسپریشن کا تعلق ہے وہ ہر تخلیق کے لیے ضروری ہے۔ شاہنامہ یا ڈیوائن کامیڈی بھی انسپریشن کے تحت لکھی گئی ہیں۔ لیکن اس کے لکھنے والوں نے پلاننگ بھی کی ہے۔بعض بعض مرتبہ ایک نظم کی تکمیل میں دس دس بارہ بارہ سال لگ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے عرصے وہی انسپریشن شاعر پر طاری نہیں ہوتا بلکہ اس انسپریشن کے تحت جو مواد شاعر لانا چاہتا ہے اس کو ایک روپ دینے کے لیے اسے محنت اور کاوش کرنی پڑتی ہے۔‘‘(۳) اختر الایمان کی شاعری کا بہ غور مشاہدہ کرنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں آمد و آورد کی حصہ داری قریب قریب برابر ہے۔ ان کی نظم کی لسانی اعتبار سے امتیازی خصوصیت اس کا اختصار اور کفایت ہے۔ لفظوں کے غیر ضروری اجتماع سے پرہیز اختر الایمان کے تخیلی و شعری تجربے کو ممیز و محکم کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ اُن کی ایک نظم ’’اور اب سوچتے ہیں ‘‘اس کی عمدہ مثال ہے۔ یہ مختصر سی نظم کچھ یوں ہے:
دور تھی منزلِ مقصود مگر چلتے رہے
ہفت خواں طے کئے ظلمات سے گزرے ، بھٹکے
وسعتِ دشت تمنا میں سراسیمہ ، زبوں ، آبلہ پا
رات دن چلتے رہے ایک لگن دل میں لیے
راہ کی گرد چھٹے کرب سے مل جائے نجات
عمر کے موڑ پہ آئے تو شش و پنج میں ہیں
اور اب سوچتے ہیں منزل مقصود تھی کیا؟
سات مصرعوں کی یہ مختصر سی نظم شعری و معنوی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ نظم اپنے پہلے ہی مصرعے سے حرکت و عمل اور ایک مسلسل سفر کی سرگزشت بیان کررہی ہے۔لیکن اس میں تہہ داری اور پراسراریت بھی ہے۔ مثلاً نظم کا بیان کنندہ واحد متکلم کون ہے؟ آیا وہ کارواں کا حصہ ہے؟ یا خود میرِکارواں ہے۔ نظم میں مصرعے کی لسانی ساخت کچھ اس طرح ترتیب دی گئی ہے کہ یہ بھی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ سفر ماضی میں ہوچکا ہے ، جس کی اب روداد بیان کی جارہی ہے۔ یہ لسانی ساخت قاری کے ذہن میں یہ بھی تاثر پیدا کرتی ہے کہ یہ سفر پوری تندہی ، لگن اور محنت کے ساتھ جاری ہے۔ معنی کی ایسی ہی کثیر الجہتی اختر الایمان کے فن کا اعجاز ہے۔
پہلے مصرعے کے بعد کے دو مصرعے سفر کی جزئیات و تفصیلات پیش کرتے ہیں۔ ان مصرعوں کی بنت کچھ اس طرح رکھی گئی ہے کہ سفر کی اذیتیں ، صعوبتیں اور جذبے کا غیر معمولی پن قاری کے ذہن میں نقش ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ان مصرعوں میں پیش کیے گئے تلمیحات و استعارے اور رمز و علائم اردو شاعری میں ایک زمانے سے برتے جارہے ہیں ، لیکن اختر الایمان نے یہاں ان کو اس فنکاری سے مرتب کیا ہے کہ یہ نظم کی روانی اور معنویت میں اضافہ کررہے ہیں۔ ہفت خواں، ظلمات ، وسعتِ دشتِ تمنا، سراسیمہ، زبوں ، آبلہ پا۔ یہ سارے الفاظ نہ صرف کلاسیکی لفظیات کی یاد تازہ کرتے ہیں بلکہ قاری کو ایک طرح کے داستانوی ماحول کی سیر بھی کراتے ہیں۔ لہٰذا پہلے مصرعے میں جس مسلسل سفر کا ذکر کیا گیا ہے یہ داستانوی ماحول اس سفر کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے۔
اس کے بعد کے مصرعوں سے نظم ایک نیا موڑ لیتی ہے اور کسی قدر مبہم اشاروں کے ذریعے شاعر قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ جہد مسلسل کا یہ سفر خارج کا سفر نہیں بلکہ ایک نوع کا باطنی سفر ہے۔ حالانکہ ان مصرعوں کی ظاہری قرأت اس امر کی طرف دلالت نہیں کرتی اور مذکورہ مصرعے :
رات دن چلتے رہے ایک لگن دل میں لیے
راہ کی گرد چھٹے ، کرب سے مل جائے نجات
اپنے قبل کے مصرعوں کا تسلسل ہی معلوم ہوتے ہی لیکن غور کرنے پر احساس ہوتا ہے کہ شاعر اب خارج سے باطن کی طرف مراجعت کررہا ہے۔ ایک طرح سے دیکھیں تو یہاں اختر الایمان نے قصیدے کے اہم جُز گریز سے استفادہ کیا ہے اور ان مصرعوں کے ذریعے بڑی فنکاری سے انھوں نے نظم کو خارج سے باطن کی طرف موڑدیاہے۔ ان دونوں مصرعوں میں بنیادی لفظ ’’کرب‘‘ ہے جو باطن کی طرف ہلکا سا اشارہ کررہا ہے وگرنہ ظاہری پریشانی و مصائب کے لیے دکھ ، درد، آلام وغیرہ سامنے کے الفاظ تھے۔
اس مصرعے کے فوراً بعد شاعر کہتا ہے:
عمر کے موڑ پہ آئے تو شش و پنج میں ہیں
یہاں نظم پوری طرح خارج سے باطن کی دنیا میں داخل ہوگئی ہے ، اور شاعر کا یہ مسلسل سفر انسانی زندگی کا استعارہ بن کر ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ نظم میں بیان کردہ زندگی کا پورا سفر جس میں کیا کیا مراحل سر کیے گئے اور زندگی کو برتنے کے لیے کیا کیا مراحل طے کیے گئے ، عمر کے ایک موڑ پر رُک کے غور کیا جائے تو شش و پنج کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور بے ساختہ یہ مصرع وارد ہوتا ہے:
اور اب سوچتے ہیں منزل مقصود تھی کیا
گویا زندگی کی یہ ساری تگ و دو ، یہ سارے مرحلے جسے انسان بڑی محنت و مشقت سے سر کرتا ہے۔ زندگی کے ایک موڑ پر یہ ساری نہیں تو ان میں سے بیشتر باتیں کارِ عبث معلوم ہوتی ہیں اور زندگی ایک سوالیہ نشان بن کر انسان کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔
اختر الایمان کا شعری رویہ اسی طرح زندگی ، وقت ، کائنات اور اسرارِ کائنات کو حوالہ بناتا ہے اور قاری کے ذہن میں سوالات کا کبھی نہ ختم ہونے والا ایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ جاتا ہے۔ شاید غالب کے بعد اختر الایمان ہی وہ شاعر ہیں جو زندگی اور اس کے علائم سے متعلق بہت زیادہ سوالات قائم کرتے ہیں۔ سوال و جستجو سے بھری اختر الایمان کی یہی نظمیں جدید اردو نظم کے لیے میل کا پتھر ثابت ہورہی ہیں۔
nvn
حواشی:
۱۔ دیباچہ برائے شعری مجموعہ ’’زمین زمین ‘‘، از: اختر الایمان ۔ ص: ۲۱
۲۔دیباچہ برائے شعری مجموعہ ’’زمین زمین ‘‘، از: اختر الایمان ۔ ص: ۲۹
۳۔ نئی نظم ۔ مرتب : زبیر رضوی ۔ ص: ۳۴

Back to Conversion Tool

Sunday, September 11, 2016

تہذیبی تبدیلیوں کے دور میں ادب کا کردار

تہذیبی تبدیلیوں کے دور میں ادب کا کردار
قمر صدیقی

اگر یہ کہاجائے کہ کرۂ ارض ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور یہ چھوٹی سی جگہ بھی اب مسلسل سمٹ رہی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ گلوبل ولیج کی سوچ تو سٹیلائیٹ دور کے شروعات کی بات تھی۔ اب انسان 3Gاور4Gکے اس دور میں سائبر اسپیس کا سند باد بن چکا ہے۔ بہت پہلے بل گیٹس نے کہا تھا کہ :

’’انٹر نیٹ ایک تلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ، اس میں ڈوب جائیں گے۔‘‘

بل گیٹس کی بات خواہ غلط ہو یا صحیح حقیقت یہ ہے کہ آج ہر جگہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی حکمرانی ہے۔ گھر ہو یا دفتر ، علم ہو یا علاج، معیشت ہو یا ثقافت اور فن ہو یا تفریح .........ہر شعبۂ حیات میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل صاف نظر آتا ہے اورلطف کی بات یہ ہے کہ مختلف ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے مزید نئی نئی ٹیکنالوجیزسامنے آرہی ہیں ، بلکہ دیوندر اِسّر کے لفظوں میں تو ساری دنیا گھر کے آنگن میں سمٹ آئی ہے اور آنگن پھیل کر ساری دنیا کی وسعت سے ہم کنار ہورہا ہے۔ الیکٹرانک مشینوں کو کہیں سے بھی ہدایتیں دی جاسکتی ہیں اور انھیں حرکت میں لایا جاسکتا ہے۔ جب ہم گھر پہونچیں گے تو سب کچھ ہماری ضرورت اور ہدایت کے مطابق تیار ہوچکا ہوگا۔ پہلے زمانے کا شاعر دیواروں سے باتیں کرتا تھا ، اب دیواریں شاعروں سے باتیں کریں گی۔ شاید ہمارے غم و انبساط میں بھی شریک ہوں گی!۔ذہین ،مکین ہی نہیں ذہین، مکان بھی ہوں گے۔ حساس دل بے حس تجربہ گاہوں میں تیار کئے جائیں گے اور منجمد سڑکیں متحرک ہوجائیں گی۔ انسان حادثات سے بچ جائے گا۔ کاریں آپ کو ڈرائیو کریں گی اور الیکٹرانک آلات آنے والے خطرات سے آپ کو آگاہ ۔ دل کا دورہ ہو یا سڑک حادثہ ،اس پیش خبری کے باعث ٹل جائے گا۔ کلوننگ سے پیدا ڈولی کوبھول جائیے، اب بھیڑیں فیکٹریوں میں تیار ہوں گی۔ جینیٹک انجینئرنگ کی مددسے صرف چار بھیڑوں سے اتنی مقدار میں انسولین تیار کی جاسکے گی جو دنیا بھر کے ذیابطیس کے مریضوں کے لیے کافی ہوگی۔ کمپیوٹر انسانی ذہن کے حامل ہوں گے اور انسان کمپیوٹر کی مانند کام کریں گے۔ انسان اور حیوان کے اعضا ایک دوسرے کے جسم میں منتقل کیے جارہے ہیں۔ ذی روح اور غیر ذی روح میں فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا ایک ریلا ہمارے شب وروز کو اپنے زور میں بہائے لیے جارہا ہے اور اس بہاؤ میں عا لمیت ، قومیت، مقامیت، رنگ، نسل ، ذات ، طبقہ، فرقہ، مذہب اور جنس کے علاوہ مغرب اور مشرق کے تفاوت کے ساتھ ساتھ نہ جانے کن کن علوم ، بشریات ، سماجیات ، تاریخ ، فلسفہ ، سیاست اور جانے کیا کچھ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگا ہے۔تہذیبی اور تکنیکی سوچ ایک نئی حسیت کی پرورش کررہی ہے۔ میڈیا یعنی ٹی وی ، کمپیوٹر وغیرہ اس سوچ کو پھیلانے کے ہتھیار ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اطلاعات کی برق رفتار ترسیل نے بڑی سہولیات پیدا کردی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ اطلاعات کی اس ترسیل کے ساتھ محض خبروں یا خبروں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ ہی کی ترسیل نہیں ہوتی بلکہ یہ الفاظ اپنے ساتھ اپناخیال اور اپنی فکر بھی لاتے ہیں ۔ اس خیال اوراس فکر کے رد و قبول کے اختیار کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کے ذریعے اتنے تواتر اورشدت کے ساتھ مختلف طرح کے اقدار و خیالات ہم تک پہنچ رہے ہیں کہ ایک طرح کی ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری اقدار سے مختلف اقدار ٹکرا رہی ہیں۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے یہ انتشار اور بحران تہذیب کے باطن میں اتر گیا ہے۔

چونکہ معاشرے میں تبدیلیاں بڑی سرعت کے ساتھ رونما ہورہی ہیں لہٰذاان تبدیلیوں کے اثرو نفوذ کے تعلق سے کوئی حتمی پیشن گوئی ممکن نہیں لیکن یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ یہ تہذیبی اتھل پتھل گلوبلائزیشن کی یک رخی تہذیب اور تیسری دنیا کی تہذیبی رنگا رنگی کے مابین جاری ثقافتی سرد جنگ کا نتیجہ ہے۔ برٹش ماہرِ سماجیات اسٹورٹ ہال نے اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’ گلوبلائزثقافت کی سب سے اہم خصوصیت اس کے یک رخے پن کی صلاحیت ہے۔یہ تہذیبوں کی تکثیریت کو ایک بڑے ڈھانچے میں سمولیتی ہے۔ ایسی ثقافت خود کو ہمیشہ مرکز میں رکھتی ہے اور باقی سب کو حاشیے پر رکھتی ہے یا غیر Otherکی شکل میں پیش کرتی ہے۔‘‘

گلوبلائز ثقافت کے اس دور میں ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ مغرب سے طرز زندگی درآمد کرنے کا مسئلہ ایک خطرے کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔ اس تہذیبی درآمدات کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی تہذیب سے منقطع ہوگئے ہیں۔ مشرقی تہذیبوں کے لیے مغرب کی یہ ثقافتی یلغار یک سطحی نہیں ہے بلکہ ایشائی تہذیب کو ایک ایسی چومکھی تہذیبی جنگ کا سامنا ہے جس کی داغ بیل انگریزی سامراج کے زمانے میں ہی پڑ چکی تھی۔ ہم میں سے بہتوں کو حیرت ہوگی کہ کارل مارکس بھی ہندوستانی تہذیب پر انگریزی تہذیب کے غلبے کا کھلا حمایتی تھا ۔ 25؍ جون 1952ء کے ’’نیویارک ڈیلی ٹریبون ‘‘ میں ’’ہندوستان میں برٹش حکومت‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ اُس کی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ ہندوستانی معاشرے کی بالکل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ کم ازکم کوئی معلوم تاریخ نہیں ........انگلستان کو ہندوستان میں دوہرا فریضہ انجام دینا ہے۔ ایک تخریبی اور دوسرا نو اصلاحی۔ قدیم ایشیائی معاشرے کو فنا کرنے اور مغربی سماج کی بنیاد رکھنے کا.......انگلستان کی مداخلت نے ہندوستان کے ان چھوٹے چھوٹے نیم وحشی ، نیم مہذب گروہوں کی معاشی بنیادوں کو تہس نہس کرکے ایسے سب سے بڑے سماجی انقلاب کو رونما کیا اور سچ تو یہ ہے کہ ایشیا میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ‘‘

کارل مارکس کے اس بیان کو ہم آج کے افغانستان ، عراق اور لیبیا پر بھی منطبق کرسکتے ہیں۔ وہاں جمہوریت اور آزادی کے نام پر ظلم کا جو ننگا ناچ کھیلا گیا ۔ اس نے سائنس و ٹیکنالوجی کی اس برتری والی دنیا کو عہد قدیم کی وحشی دنیا کے مقابل لاکھڑا کردیاہے۔

دراصل تہذیبی آدان پردان کے قدیم اور روایتی سلسلے کو مغربی اقوام کی طاقت پرستی اور تعصب نے پوری دنیا کے لیے ایک تہذیبی بحران میں تبدیل کردیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو معروضیت ، تعقل پسندی اور ترقی کا جواز پیش کیا ہے انسانی فکر و احساس اس سے بے نیازی نہیں برت سکتا۔ ظاہر ہے کہ کمپیوٹر ، انٹر نیٹ ، میڈیا اور انسانیت کو فیض پہنچانے والی دوسری ٹیکنالوجیز سے کوئی انسان آنکھ موڑنا پسند نہیں کرے گا، لیکن ٹیکنالوجی کوکسی مخصوص تہذیب کو وسعت دینے کے لیے استعمال کرنا شاید ہی کسی کو قابلِ قبول ہو۔ لہٰذا ایک طرف تو ساری دنیا میں ایک مخصوص تہذیب کورواج دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف امریکی مفسر سیموئیل ہٹینگ ٹن ’’تہذیبوں کے تصادم ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔

ایسی صورتِ حال میں ادب کو کون سا رول ادا کرنا ہے؟ اور تبدیلی کے اس عمل میں ادیب کا کردار کیا ہونا چاہئے یہ طے کرنا تو خیر مشکل ہے۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ تبدیلی کے اس عمل میں ادب اور ادیب دونوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور اگر ادیب کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوجائے تو وہ یقیناً اپنے دور کا امیر خسرو، میر و غالب، آتش و مصحفی، نظیر و انیس ، حالی و داغ، اقبال و فیض بن جاتا ہے۔ ان تمام نابغۂ روزگارشخصیات کی تخلیقی جودت یہ تھی کہ انھوں نے روحِ عصر کو اپنے اندر سمویا اور تخلیقی تجربہ کشید کیا۔ادب خارجی واقعات کا محرر نہیں، سو وہ واقعات کی تہہ میں خوابیدہ اسرار و تجربات کو اظہار کے سانچوں میں لازوال کرتا ہے۔ گویا اس کا منصب وقت اور عارضی کو ابدی اور لافانی میں ڈھالنا ہے۔ اس طرح وہ معاشرے کا واحد رکن ہے جو ہر طرح کے موسم اور حالات میں اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری پر متمکن ہے کیونکہ ادیب جغرافیائی حدود میں زندہ رہتے ہوئے بھی عالمی اور آفاقی وجود رکھتا ہے۔

***
Back to Conversion Tool

Tuesday, August 23, 2016

اردو کے ابتدائی افسانہ نگار

اردو کے ابتدائی افسانہ نگار

قمر صدیقی
اردو افسانے کے آغاز اور اولیت کو لے کر خاصے اختلافات رہے ہیں۔ حالانکہ اردو افسانے کا سفر کچھ ایسا طویل بھی نہیں ہے کہ یہ تحقیق کے لیے کوئی بہت بڑا چیلنج ہو۔لیکن اردو افسانے کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ ہمارے زیادہ تر محققین کولسانی کھکھیڑیں سلجھانے اور قدیم ترین متون کی تدوین و ترتیب نے اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ وہ اس سمت بھی توجہ کرتے یا شاید افسانہ (یاتخلیقی ادب) ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا۔ خیر اس صورتِ حال کے مدنظر اردو افسانے کی روداد لکھنے کی ذمہ داری محققین کے بجائے ناقدین نے اپنے سرلی اور اس ضمن میں پہلا قدم ہی غلط پڑا۔
1955کے ’’نقوش‘‘ کے افسانہ نمبر میں شائع ایک بحث میں پروفیسر وقار عظیم نے پریم چند کو اردو کا پہلا افسانہ نگار قرار دیا۔ پروفیسر احتشام حسین نے بھی اسی طرح ’’کتاب‘‘ (لکھنؤ) میں شائع ایک بحث میں سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند دونوں کو اردو کا اولین افسانہ نگار تسلیم کرتے ہوئے فرمایا : ’’ہم کو جو ابتدائی افسانہ نگار ملتے ہیں ، ان میں دو نام نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ ایک سجاد حیدر یلدرم کا اور دوسرا پریم چند کا۔‘‘ سجاد حیدر یلدرم کو اردو کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کرنے والوں میں پروفیسر احتشام حسین اکیلے نہیں ہیں۔ پطرس بخاری اور ڈاکٹر معین الرحمن بھی ان کے ہمنوا ہیں۔ ابو الفضل صدیقی نے (’’سیپ‘‘ ، کراچی 1980) سلطان حیدر جوش کو اردو کا پہلا افسانہ نگار قرار دیا ہے تو ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے خواجہ حسن نظامی کو۔
اردو افسانے کے محض اگیارہ دہائیوں کے قلیل مدت کے سفر کی تاریخ کے تعلق سے اس طرح کا تضاد افسوس ناک بھی ہے اور عبرت آموز بھی۔ در اصل یہ پورا معاملہ غیر سائنسی طریقۂ تحقیق اور ذاتی ترجیحات اور تعصبات کا غماز ہے۔ وگرنہ اردو کے وہ ابتدائی ادبی مجلے جنھوں نے اول اول افسانے شائع کیے ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے اور آج بھی وہ ہندوستان کی چیدہ چیدہ لائبریروں میں دستیاب ہیں ۔مثلاً ’زمانہ ‘ (کانپور) ، ’معارف‘ (علی گڑھ)، ’ مخزن‘ (لاہور اور دہلی) ، ’اردوئے معلی‘ (علی گڑھ) وغیرہ۔
ڈاکٹر مسعود رضا خاکی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے 1965میں ’’ اردو افسانے کا ارتقا‘‘ کے موضوع پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں راشد الخیری کے افسانے ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ (مطبوعہ مخزن 1903) کو اردو کا پہلا افسانہ قرار دیا۔ پھر پروفیسر مرزا حامد بیگ نے ’مخزن‘ (لاہور، شمارہ 3، جلد 6، بابت دسمبر 1903 صفحہ نمبر 27تا 31) سے راشد الخیری کا یہ افسانہ حاصل کرکے 1991میں ’’فنون‘‘ (لاہور) میں شائع کروادیا اور اس کے بعد سے راشد الخیری کے افسانے ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ کو اردو کا پہلا افسانہ تسلیم کرلیا گیا۔ 1997میں مظہرامام نے معروف پاکستانی رسالہ ’’آئندہ‘‘ (کراچی) میں بہار کے دو افسانہ نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے ثابت کیا کہ علی محمود ( پہلا طبع زاد افسانہ ’’چھاؤں‘‘ ، ’مخزن‘۔لاہور ۔ بابت اپریل 1904) اور وزارت حسین اورینی( پہلا طبع زاد افسانہ ’’افسانۂ حرماں یعنی مرگِ محبوب‘‘ ،’ اردوئے معلی‘ ۔علی گڑھ۔ بابت جون 1905)بھی اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔
اردو کے قدیم ادبی مجلّوں مثلاً مخزن، اردوئے معلی، زمانہ اور عصمت وغیرہ کی فائلیں دیکھنے کے بعد اردو کے اولین افسانہ نگاروں کی فہرست اس طرح مرتب ہوتی ہے۔
۱۔ راشد الخیری ، افسانہ ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور ) دسمبر 1903
۲۔ علی محمود ، افسانہ ’’چھاؤں ‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور ) جنوری 1904
۳۔ علی محمود ، افسانہ ’’ایک پرانی دیوار‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور) اپریل 1904
۴۔ وزارت حسین اورینی ، افسانہ ’’ افسانۂ حرماں یعنی مرگِ محبوب‘‘ ، مطبوعہ ’’اردوئے معلی‘‘ (علی گڑھ) جون 1905
۵۔ راشد الخیری ، افسانہ ’’بدنصیب کا لال‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور) اگست 1905
۶۔ سجاد حیدر یلدرم ، افسانہ ’’ دوست کا خط‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (لاہور ) اکتوبر 1906
۷۔ سجاد حیدر یلدرم ، افسانہ’’غربت و وطن‘‘ ، مطبوعہ ’’اردوئے معلی‘‘ (علی گڑھ) اکتوبر 1906
۸۔ راشد الخیری ، افسانہ ’’عصمت و حسن‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (دہلی) اپریل تا مئی1907(دو قسطوں میں)
۹۔ راشد الخیری ، افسانہ ’’ رویائے مقصود‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن ‘‘(دہلی) اکتوبر 1907
۱۰۔ سلطان حیدر جوش ، افسانہ ’’نابینا کی بیوی‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (دہلی) دسمبر 1907
۱۱۔ پریم چند ، افسانہ ’’ عشق دنیا اور حب وطن ‘‘ ، مطبوعہ ’’زمانہ ‘‘ (کانپور) اپریل 1908
۱۲۔ راشد الخیری ، افسانہ ’’ نند کا خط بھاوج کے نام‘‘ ، مطبوعہ ’’عصمت‘‘ (دہلی) جون 1908
۱۳۔ راشد الخیری ، افسانہ ’’شاہین و درّاج‘‘ ، مطبوعہ ’’مخزن‘‘ (دہلی) جون 1908
۱۴۔ پریم چند ، افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ مشمولہ ’’سوزِ وطن‘‘ جون 1908(طبع اول ۔ دہلی)
اس طرح اردو کے پہلے افسانہ نگار راشد الخیری قرار پاتے ہیں۔ دوسرے علی محمود، تیسرے وزارت حسین اورینی ، چوتھے سجاد حیدر یلدرم ، پانچویں سلطان حیدر جوش اور چھٹے پریم چند ۔ مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں پریم چند کا افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ جسے اردو کا پہلا افسانہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے ، تاریخی اعتبار سے اردو کے طبع زاد افسانوں میں اس کانمبرچودھواں ہے۔
دیگر حضرات جن کے سر اولیت کا تاج رکھا جاتا رہا ہے ان میں سدرشن کا اولین افسانہ ’’ سدا بہار پھول‘‘ 1912کی تخلیق ہے۔ جبکہ خواجہ حسن نظامی کا اولین افسانہ ’’ بہرا شہزادہ‘‘ ، ’’ہمایوں‘‘ کے جنوری 1913کے شمارے میں شائع ہوا۔ نیاز فتح پوری کا افسانہ ’’ایک پارسی دوشیزہ کو دیکھ کر ‘‘ ، ’’تمدن‘‘( دہلی) اور ’’نقاد‘‘ (آگرہ) دونوں رسالوں میں جنوری 1913میں شائع ہوا۔ اس طرح سدرشن، خواجہ حسن نظامی اور نیاز فتح پوری اردو کے افسانوی منظر نامے پر اس وقت نمودار ہوئے جب اردو افسانے کا سورج طلوع ہوکر کسی قدر روشنی بکھیرنے لگا تھا۔ البتہ چودھری محمد علی ردولوی کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ معلوم حقائق کی بناکر کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز یلدرم اور پریم چند کے ساتھ کیا لیکن چونکہ وہ اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز تھے لہٰذاکچھ اپنی سماجی حیثیت اور کچھ اپنے مزاج کی بنا پر انھوں نے رسائل کے مدیران کو افسانہ اشاعت کے لیے بھجوانے میں تامل برتا لیکن ان کی اس تساہلی کے باوجود انھیں اردو افسانے کے اولین معماروں میں شمار نہ کرنا بہت بڑی نا انصافی ہوگی۔
***
Back to Conversion Tool

Thursday, July 28, 2016

اقبال کا تصورِ موت

اقبال کا تصورِ موت

  ڈاکٹر قمر صدیقی
 
موت ایک ایسا عام فہم لفظ ہے جس کے تصور سے ہر انسان واقفیت رکھتا ہے۔ دن رات کے مشاہدات موت کے بے شمار مناظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے عزا و اقربا کے وداعِ دائمی کے وقت موجود نہ رہاہو۔ حیرت کی بات ہے کہ جو چیز اس قدر ہمہ گیر اور دن رات کے معمولات میں شامل ہے اس کے تصور سے انسان گھبراہٹ اور پریشانی محسوس کرتاہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے اور حیاتِ ابدی ممکن نہیں لیکن ہمارا دل و دماغ موت کے تصور سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو زوالِ زندگی یا اختتامِ زندگی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے ذہن و تصور پر یہ خوف چھایا رہتا ہے کہ موت کے بعد ہم لذائذِ دنیا و کوائفِ زندگی سے یک لخت محروم ہوجائیں گے اور موت ہمارے سارے ولولوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا خاتمہ کردے گی۔ ہم زندگی کا سفر طے کرنے کے بعد اپنی آخری منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں دائمی جمود اور ابدی تعطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
موت کے تعلق سے مذکورہ بالا خیالات ایک عالمگیر تصور کی صورت انسانی نفسیات میں رچ بس گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس تصور کے علی الرغم موت کے اسلامی تصور کو اپنی شاعری میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک موت کے یہ معنی نہیں کہ یہ ہمیں ابدی نیند سلادیتی ہے بلکہ اقبال موت کو دوسری بہتر اور لازوال زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں:
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
***
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی ، صبحِ دوامِ زندگی
اقبال کے نزدیک موت سے وہی لوگ ہراساں و پریشان ہوتے ہیں جن کا ایمان آخرت کے یقین سے محروم و تہی دامن ہوتا ہے۔ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں موت کو آئندہ زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔موت کے خوف کو علامہ اقبال دنیائے اسلام کا سب سے بڑا فتنہ تسلیم کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ انسان ذاتی منفعت جیسی ادنیٰ ترین چیز کے لیے توہزار ذلت و رسوائی برداشت کرلیتا ہے جبکہ موت جو کہ محض ہوش و حواس کا کچھ عرصہ موقوف ہونے کا نام ہے اس سے ہمہ وقت خائف رہتا ہے۔
ہمچو کافر از اجل ترَسِندہ ئی
سینہ اش فارغ ز قلب زندہ ئی
(کافر کی طرح موت سے ڈرتا ہے۔ اس کے سینے میں زندہ رہنے کا والا دل نہیں ہے۔)
ایک بار سرورکائنات حضور ؐ نے فرمایا کہ:
’’ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ مسلمان نہایت ذلیل و خوار ہوں گے ۔ ان کی زندگی باعثِ ننگ و عار ہوجائے گی۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اُس وقت تو ان کی تعداد اب سے بہت زیادہ ہوگی۔ اصحاب نے پھر دریافت کیا یا رسول اللہؐ کیا اُس وقت مسلمانوں میں افلاس آجائے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا نہیں وہ اُس وقت کافی خوش حال و دولت مند ہوں گے۔ اصحاب نے استفسار کیا یا اللہ کے رسولؐ پھر ناتوانی و بے چارگی کی کیا وجہ ہوگی۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑی لعنت جو ان پر مسلط ہوچکی ہوگی وہ موت کا غیر معمولی خوف اور دنیا سے انتہائی محبت ہوگی۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث کی کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوجائے گا کہ موت کا خوف ارفع و اعلیٰ مقاصد میں کس طرح سد راہ ہوتاہے۔ اقبال کی نظر میں موت سے خوف کھانا ایک سطحی جذبہ ہے کیوں کہ اُس چیز سے خوف کھانا جو اٹل اور ہمہ گیرہو بزدلی کی علامت اور سراسر حماقت ہے۔ انسان اپنی ہزاروں کوششیں، لاکھوں تدابیر، فنِ طب کے مسلسل و لا محدود تراکیب سے بھی موت کو زیر نہیں کرسکا ہے۔ موت کے اٹل ہونے کواقبال نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے:
زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم ، چہچہایا ، اُڑ گیا
آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم ، کیا گئے
زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے مرجھا گئے
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے ، دم کے سوا کچھ بھی نہیں
موت کی اس ہمہ گیر اور عالم گیر حقیقت کو سمجھانے کے بعد اقبال یہ بتاتے ہیں کہ موت کیوں ضروری و لازمی ہے۔ فلسفہ کا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ کسی چیز کا صحیح تعارف اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی ضد موجود نہ ہو۔ روشنی کے لیے تاریکی، بیداری کے لیے خواب ، خوشی کے لیے غم اور زندگی کے لیے موت۔ اقبال اس نکتہ کو نظم ’’فلسفۂ غم ‘‘ میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:
گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی
موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی
ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل ، وہ بلبل ہی نہیں
اقبال کے تصورِ موت میں موت کتابِ زندگی میں ایک نئے باب کے اضافے سے عبارت ہے اور یہ یقینی امر ہے کہ یہ نیا باب پہلے سے زیادہ حسین ، زیادہ رنگین و دلفریب ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہ ہر موت یا فنا کے بعد انسان ارتقا کا ایک درجہ طے کرتا ہے اقبال نے نظم میں بے شمار خوشنما تشبہیوں و استعاروں سے کام لیا ہے۔غروب و طلوع آفتاب دن رات کا قصہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پھولوں کی شاخ میں پہلے کی پھوٹتی ہے جو بڑھ کر پھول کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جانتے تو سب ہیں دیکھتا بھی ہر شخص ہے مگر اقبال کی دور رس و حقیقت شناس نظر اسی چیز کو اور ہی زاویے سے دیکھتی ہے ۔ وہ نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اس سے وہ سبق حاصل کرتی ہے جس سے موت کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا اس نظم کے آخری بند میں اقبال کچھ اس طرح گویا ہوتے ہیں:
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
اقبال کا تصورِ موت فکر اسلامی کے عین مطابق ہے۔ اُن کے نزدیک خواب و بیداری اور موت و حیات کا تعلق یکساں ہے۔ جس طرح سوتے وقت انسان دنیا و مافیہا سے کچھ دیر کے لیے بے خبر ہوجاتا ہے اسی طرح موت گو ظاہر بین نظروں کے لیے کتابِ زندگی کو تہ کردیتی ہے۔ لیکن باطن بیں نگاہیں حیاتِ مابعد کے مناظر سے آشنا ہوجاتی ہیں۔
***

Friday, July 22, 2016

نوبل انعام یافتہ فکشن نگار نجیب محفوظ پر چند تاثرات

 

معنی کے طرزِ وجود کا فکشن نگار: نجیب محفوظ

قمر صدیقی



نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغازمعروف عربی جریدے ’المجلہ الجدید‘، مصر سے شروع کیا تھا۔ اس میں شائع ہونے والی تحریریں ترقی پسند نظریات سے نجیب کی وابستگی کا اعلان نامہ تھیں۔اگرچہ ابتدائی دورمیں شائع ہونے والی ان کی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں تحریر کی گئی تھیں تاہم اُن کہانیوں میں بھی مارکسی اثرات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب نجیب محفوظ نے اعلان کیا تھا کہ وہ سائنس، سوشلزم اور برداشت میں یقین کرنا سیکھ رہے ہیں۔ بعد ازاں نجیب سر رئیلسٹ فکشن نگاری کی طرف ملتفت ہوگئے ۔بعض ناقدین نے سر ریئلزم سے نجیب کے اس التفات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا ۔ حتیٰ کہ انھیں قنوطیت پسند فکشن نگار کے لقب سے بھی نوازا گیا:
’’نجیب محفوظ نے اپنی سوشلسٹ آیڈیالوجی سے ہٹ کر گہری قنوطیت کی راہ اختیار کر لی اور اپنے ارد گرد برے شکون کا دائرہ کھینچ لیا۔‘‘
( ایڈرورڈ بون ۔ ٹائمس لٹریری سپلیمنٹ۔ ص: ۹دسمبر ۔ ۱۹۹۰ء)
لیکن نجیب اپنے اِس اسلوب پر کاربند رہے۔بطور ایک سر رئیلسٹ فکشن نگار انھوں نے اپنی کہانیوں میں تصوف اور مابعدالطبعیاتی تجربات کو کامیابی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی۔انہوں نے اپنی گویائی وہاں سے شروع کی جہاں سائنس خاموش ہوجاتی ہے۔ آگے چل کر انھوں نے ایسی کہانیاں تحریر کہیں جن میں سائنسی سماجیات اور روحانیت کسی حدتک آپس میں ہم آغوش ہیں۔1945ء میں شائع ہونے والا ان کا پہلا ناول ’خان الخلیلی‘ اسی کشمکش کی عکاس ہے۔اِس ناول کی اشاعت کے بعد نجیب محفوظ کو عرب دنیا میں ایک ناول نگار کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ البتہ اُن کے ملک مصر میں انھیں ایک ممتاز فکشن نگار کی حیثیت اُس وقت حاصل ہوئی جب ۱۹۵۷ء میں تین ہزار صفحات پر مشتمل اُن کی مشہور رزمیہ تصنیف ’’قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار ڈرامے‘‘کی اشاعت ہوئی۔ یہ رزمیہ دراصل تین سلسلے وار ناول ہیں۔ پہلے ناول کا نام ہے ’ محل کی سیر Walk Palace The ، دوسرے ناول کا نام ہے ’ خواہشات کا محل‘ Palace of Desir اور تیسرے ناول کا نام ہے ’چینی کی گلی ‘ Sugar Street ۔تین ہزار صفحات کا احاطہ کرنے والے اس رزمیے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کے سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ رزمیے کی اشاعت کے بعد نجیب کو مصر میں نوجوان نسل کا ایک بڑا ناول نگار قرار دیا جانے لگا۔ البتہ عرب دنیا سے باہر نجیب کی شناخت ۱۹۶۰ء کے بعد قائم ہونی شروع ہوئی جب ان کی تصنیفات کے انگریزی، فرانسیسی ، جرمن ، اردو اور روسی زبانوں میں تراجم ہونے شروع ہوئے۔ نجیب کی اِس شہرت کو ۱۹۸۸ء میں ادب کا نوبل پرائز ملنے کے بعد گویا پَر لگ گئے اور وہ پوری دنیا میں عظیم ناول نگار تسلیم کیے جانے لگے۔
نجیب محفوظ روایتی فکشن نگار نہیں ہے اور روایتی ذہن کے ساتھ نجیب کی تحریروں کی قرأت عموماً ترسیل کی ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔ دراصل نجیب معنی کی ترسیل کا نہیں بلکہ معنی کے طرزِ وجود (یعنی Ontology) کا فکشن نگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تحریریں مثلاً شوگر اسٹریٹ وغیرہ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں باب در باب معنی کی تعمیر نہیں بلکہ معنی کے انہدام کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔دراصل اس ناول میں معنی خیزی کا منبع اِس کے قصے سے ماورا ،اِس کے اجزا کے باہمی ارتباط کا مرہون منت ہے۔ نجیب نے جن جگہوں، عمارات اور اشخاص کا ذکر اِس ناول میں کیا ہے غور کریں تووہ اِس ناول کی بافت یا فریم سے باہر اپنی اُس معنویت سے محروم ہوجاتے ہیں ، جو انھیں مذکورہ ناول میں حاصل ہے۔ یعنی ناول سیاق سے باہر قاہرہ وہ قاہرہ نہیں رہتا جو کہ ناول میں ہے۔ یا پھر کردار اور معاشرہ کے تعلق سے گفتگو کریں تو اس ناول میں جو ایک بھرا پُرا خاندان ہے اُس کی معنویت کا تعین ناول کے فریم اور اُس کے متن سے باہر شایدہی ممکن ہوسکے۔ لہٰذا ناول شوگر اسٹریٹ کو اس کے متن سے باہر نکل کر سمجھ پانا قدرے مشکل ہے۔
اسی طرح نجیب کا ایک پیچیدہ افسانہ ’’وقت اور مقام‘‘ ہے۔ اس افسانے میں پیچیدگی شاید اس لیے در آئی ہے کیوں کہ افسانے میں ایک ہی سطح پر دو زمانوں کو پیش کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔ جس میں مابعد از طبیعات اور سائنسی سماجیات آپس میں کھل مل گئی ہیں۔افسانہ کا قصہ کچھ یوں ہے کہ راوی ،اس کا ایک بھائی اور ایک بہن مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اپنے آبائی مکان کو فروخت کرکے وہ ایک آرام دہ فلیٹ میں منتقل ہوجائیں۔ اس بیچ راوی اپنے آبائی مکان میں ایک میٹا فیزکل تجربے سے گزرتا ہے۔ اسے ایک ایسا شخص دکھائی دیتا ہے جو اس کا ہم شکل ہے ۔ ایک بوڑھا شخص راوی کے اُس ہم شکل کو ایک صندوقچی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ چونکہ اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے اس لیے وہ اِس صندوقچی کو کسی مناسب مقام پر دفن کردے اور وقت آنے پر اسے نکال کر اس میں لکھی ہدایات پر عمل کرے۔ راوی کو یہ سب خواب جیسا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم تلاش کے بعد راوی وہ جگہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں واقعی صندوقچی دفن ہوتی ہے۔اُس کے تحیر کا ٹھکانہ نہیں رہتا اور وہ اپنے بھائی اور بہن کے مکان فروخت کرنے کے فیصلے سے خود کو الگ کرلیتا ہے۔ وہ صندوقچی کھول کر اُس میں پڑے کاغذ کے پرزے کی ہدایت پر عمل کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ ‘‘ خط میں پیر عارف البلقانی کے گھر کا پتہ بھی درج ہے۔ راوی خط پڑھ کر عارف البلقانی کے مکان کو تلاش کرتا ہوا پتے تک پہنچتا ہے۔ وہ مکان پولیس کی نگرانی میں ہے ۔ راوی کے وہاں پہنچنے پر اُسے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔مکان میں پہلے سے ہی ایک شخص قید ہے ۔ پولیس راوی کواُس کا گرگا تسلیم کرکے جیل میں ٹھونس دیتی ہے۔
اس طرح کے افسانوں کے لیے جس نوع کی فن کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے تعلق سے پروفیسر قاضی افضال حسین نے تحریر کیا ہے کہ :
’’اگر بالکل سادہ غیر تنقیدی زبان میں کہیں تو افسانہ جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا فن ہے، اس لیے نہیں کہ اس میں بیان کردہ واقعات ’’سچے‘‘ نہیں ہوتے ؍ ہوسکتے بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار ، ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلا سکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لیے کوئی خاص زمانی یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے، جس کا تعلق ماضی بعید سے ہوتو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یہ یقین دلا دے کہ وہ ’’فرضی‘‘ کہانی نہیں سنا رہا ، ایک خاص انداز سے تاریخ بیان کررہا ہے۔ اس نوع کے تاریخی افسانے کی سب سے آسان ترکیب یہ ہوتی ہے کہ بیان میں ماضی کے ایک زمانے میں ایک مخصوص جگہ، موجود افراد ؍ تعمیرات کے اسمائے خاص اور لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کا حوالہ شامل کردیا جائے۔ اِن اسماء یا واقعات کا شدید حوالہ جاتی کردار بیان کی افسانویت ، یعنی اُس کی لسانی تشکیل ہونے پر دبیز پردے ڈال دیتا ہے۔ قاری پر افسانہ نگار کے اس فریب کا راز نہیں کھلتا اور ہم ایک صاف ’’جھوٹ‘‘ کو بے ملاوٹ ’’صداقت ‘‘ سمجھ کر پڑھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘
(تحریر اساس تنقید۔ از: پروفیسر قاضی افضال حسین۔ ص: ۲۵۳۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ ۲۰۰۹ء)
افسانے کی بُنت میں نجیب نے مذکورہ بالا فنی چالاکیوں سے کام لیتے ہوئے ایک ایسا بیانیہ خلق کیا ہے جس میں جگہ جگہ سر ریئلزم کے رنگوں کی چھاپ بھی نظر آجاتی ہے۔ ایک نامانوس اور تحیر خیز کیفیت سے شروع ہونے والے اس افسانے کا اختتام مانوس مگر ناپسندیدہ ماحول پر ہوتاہے۔ مثلاًافسانے کا ابتدائی حصہ ہے کہ :
’’ ہماری بیٹھک نجانے کہاں کھو گئی اور اس کی جگہ ایک لمبے چوڑے دالان نے لے لی۔ جس کا دوسرا سرا چوک کی موٹی سفید دیوار تک جا پہنچا تھا۔ دالان میں کہیں گول گول اور کہیں دوج کے شکل میں گھاس اُگی ہوئی تھی اور درمیان میں ایک کنواں تھا ۔ کنویں سے کچھ فاصلے پر کھجور کا ایک اونچا درخت تھا۔ میں دو احساسات کے بیچ جھولنے لگا۔ کبھی لگتا کہ کچھ ایسا دیکھ رہا ہوں جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ کبھی لگتا کہ ان میں کچھ بھی میرے لیے ان دیکھا نہیں ہے۔مدھم ہوتی ہوئی روشنی سورج کے غروب ہونے کا اشارہ کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی کنویں اور کھجور کے درخت کے بیچ ایک ادھیڑ آدمی بھی آن کھڑا ہوا جو قطعی میری پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اُس ادھیڑ شخص کو ایک چھوٹی سی صندوقچی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ :’’اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسے زمین میں گہرا گاڑ کر چھپا دے۔ صحیح وقت آنے پر نکالنا۔‘‘
(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۹۸۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )
خواب اور واہمے کے درمیان کی کیفیت کے اِس ابتدائی بیانیے کے بعد اس افسانے کا اختتام بھی ملاحظہ فرمانے کی زحمت کریں :
’’خاموشی کی دبیز چادر ہم پر چھاگئی۔ میں نے نئے مکان میں بیٹھے ہوئے اپنے بھائی ، بہن کا تصور کیا اور پرانے مکان میں بنے ہوئے گڑھے ، کنویں اور کھجور کا بھی۔ ساری چیزیں میرے سامنے اس طرح پیش ہوئیں جیسے میں اس کے اندر ہوتے ہوئے بھی ان کو باہر سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ مگر کوئی میری او‘ر نہیں گھوما ۔کسی نے خاموشی نہیں توڑی۔‘‘
(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۲۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )
افسانے کے ابتدائی اور اختتامی حصوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات کسی قدر واضح ہوتی ہے کہ افسانے کی تفہیم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اُسے پہلے سے رائج تصورات کی مدد سے ہی سمجھا جاسکے۔ ہر بڑا فن پارہ اکثر اپنے پیش رو طریقۂ تفہیم کی نفی بھی کرتا ہے اور اپنی ترسیل کی نئی روایت کی بافت بھی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ متن ہمیشہ ایک شفاف میڈیم کے طور پر سامنے آئے جیسا کہ حقیقت پسند افسانے میں پہلے سے موجود سچائی کو دوبارہ پیش کرتے ہوئے سامنے آتا ہے۔ اِس افسانے کا متن بھی سبب اور نتیجے والی افسانے کی روایتی منطق سے انکار کرتے ہوئے اپنی پیچیدگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ البتہ سبب اور نتیجے کے عمل اور فیصلے کے لیے قاری کو راوی کے جبر سے آزاد کردیتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا دونوں پیراگراف کی مدد سے افسانے کی تعبیر اور تشریح کی تمام تر کوششوں کے لیے قاری آزاد ہے۔مثال کے طور پر افسانے کو ایک ایسی ناصحانہ تحریر کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے محض تخیل کی مدد سے کیے گئے عمل کا نتیجہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ یا اگر پورے متن کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور اس مطالعہ میں مصر کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھا جائے تو یہ افسانہ ایک ایسی انڈر گراؤنڈ تحریک کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اُس وقت کی مصری حکومت کے طرز عمل سے نالاں ہے۔ راوی کے لاشعور میں اُس تحریک کے تئیں ہمدردی کے جذبات موجود ہیں لہٰذا اسے اس طرح کا خواب دکھائی دیتا ہے۔ خود افسانے کے متن میں بھی اِس کے شواہد موجود ہیں۔ مثلاً خط میں تحریر کیے جملے کی نوعیت ملاحظہ ہو:
’’ اپنا مکان مت چھوڑ ، کیوں کہ یہ قاہرہ میں سب سے خوبصورت ہے اور پھر اہلِ ایمان کے لیے تو بس یہی ایک مکان ہے۔ یہی ایک محفوظ مقام ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ تو اُن کے مکان میں جا۔ ‘‘
(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۰۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )
مصر کے سماجی اور خاص طور سے سیاسی حالات کو نگاہ میں رکھیں تو حکومت سے اختلاف، ایسی ہی علامتی کہانی کے ذریعے ممکن تھا۔ لہٰذا اس افسانے کی ایک یہ بھی تفہیم ممکن ہے۔
***