Tuesday, September 20, 2016

اختر الایمان کی شاعری

اختر الایمان کی شاعری
قمر صدیقی

اختر الایمان جدید اردو شاعری کے ایسے منفرد و ممتاز شاعر ہیں ، جن کی شاعری جدید اردو ادب میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔نہ صرف ان کے شعری تجربے بلکہ ان کی نظموں کی تکنیک نے بھی پوری جدید اردو شاعری کو متاثر کیاہے ۔ان کی شاعری کا بنیادی رویہ تہذیب اور معاشرے میں سماجی اور نفسیاتی اقدار کی کشمکش اور تصادم سے عبارت ہے۔شکست و ریخت اور داخلی و خارجی ہیجانات کے عہد میں اخترالایمان نے انسانی زندگی میں نابرابری، ذہنی دباؤ اور جذباتی تنہائی کے تجربوں کو شعری پیکروں میں ڈھال کر اردو شاعری کو ایک نئے تجربے سے روشناس کرایا ہے ۔
اختر الایمان ۱۹۱۵ء میں اترپردیش کے مردم خیز ضلع بجنور کے قصبہ نجیب آباد میں پیدا ہوئے۔انھوں نے دلی کے ذاکر حسین کالج سے گریجویشن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۵ء میں وہ ممبئی آکر فلم انڈسٹری میں بطور اسکرپٹ رائٹر منسلک ہوگئے۔ انھوں نے تقریباً ۴۰ فلموں کے اسکرپٹ لکھے جن میں قانون ، وقت، پھول اور پتھر، ہمراز، گبن، میرا سایا، پتھر کے صنم ، آدمی، داستان، دھند، داغ اور روٹی وغیرہ فلمیں اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلموں میں شمار ہوتی ہیں ۔ اختر الایمان نے ایک فلم ’’لہو پکارے گا‘‘ میں بطور ڈائریکٹر اپنی خدمات پیش کیں۔
اختر الایمان کے کل ۸ شعری مجموعے شائع ہوئے۔ پہلا مجموعہ ’’تاریک سیارہ‘‘ ۱۹۴۳ء میں ، جبکہ اس کے بعد بالترتیب گرداب (۱۹۴۶ء)، آب جو(۱۹۵۹ء)، یادیں (۱۹۶۱ء)، بنت لمحات (۱۹۶۹ء)، نیاآہنگ(۱۹۷۷ء)، سر و ساماں (۱۹۸۳ء) اور زمین زمین (۱۹۹۰ء) میں شائع ہوئے۔مجموعۂ کلام ’’یادیں‘‘ کے لیے انھیں ۱۹۶۲ء میں ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازا گیا تھا۔اختر الایمان کے انتقال کے بعد آخری مجموعۂ کلام ’’زمستاں سردمہری کا‘‘ اُن کی اہلیہ سلطانہ ایمان اور بیدار بخت نے مرتب کرکے شائع کیا۔اختر الایمان کی سوانح ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی۔
اردو نظم نگاری میں اختر الایمان کی شاعری ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دراصل حلقۂ ارباب ذوق نے نئی اردو نظم کو فروغ دینے کی جو کوششیں کیں اسے اخترالایمان جیسے شعرا کی وجہ سے استقامت حاصل ہوئی۔ حلقۂ ارباب ذوق سے بہت پہلے اردو نظم کی ہیئت و اسلوب میں تبدیلی کا آغاز مولوی محمد حسین آزاد اور ان کی رفقا نے شروع کیاتھا ۔ مولانا الطاف حسین حالی، اسمعیل میرٹھی ،سرور جہان آبادی، عبد الرحمن بجنوری جیسے شعرانے اس نئی طرز کی نظم نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔ نئی اردو نظم میں اجتہاد کی انفرادی مثال عظمت اللہ خاں نے پیش کی اور صوری طور پر شاعری کو وہ اسلوب مہیا کیا جس پر چل کرجوش، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، روش صدیقی، حامد اللہ افسر اور اثر صہبائی وغیرہ نے اردو نظم کو نئی ر۱ہوں سے متعارف کروایا۔ ترقی پسند تحریک نے نظم کو اپنے حصولِ مقاصد کا اہم وسیلہ سمجھا لہٰذا تحریک کے زیر سایہ اردو نظم میں خطابت کی گھن گرج اور بھاری بھرکم لہجے کا رجحان پیدا ہوا۔ حالانکہ اسی دور میں ن۔م۔ راشد اور اخترالایمان نے ترقی پسندی کے اس غالب رجحان کے علی الرغم نظم میں معنویت کو بنیاد بناکر شاعری کی۔ہرچند کہ اختر الایمان کی شاعری کا بھی بیشتر حصہ سیاسی و معاشرتی شعور کا حامل ہے تاہم انھوں نے ترقی پسندوں کی طرح اپنی نظم کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا۔ لہٰذا ان کی نظمیں ترقی پسند نظم نگاروں کے برخلاف لفظوں کی کثرت اور نمائش سے اجتناب کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں۔خود اختر الایمان اپنے اس شعری رویے کی بابت تحریر کرتے ہیں:
’’اِدھر کچھ مدت سے مجھے اس بات کا شدید احساس ہونے لگا ہے کہ جس معیار کا انسان پہلے پیدا ہوتا تھا اب نہیں ہوتا۔ اس میں کمی آگئی ہے۔ وسیع الخلق ، وسیع النظر، وسیع المشرب، وسیع الظرف ، وسیع الخیال، متواضع اور بردبار ، جیو اور جینے دو پر ایمان رکھنے والا، وہ کم ہوگیا ہے۔
ظاہری وجہ تو اسباب و آلاتِ معیشت ہی ہوں گے مگر زندگی میں لالچ کیوں بڑھ گیا۔ مانا مادّی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے والے آلات اور ذرائع بدل گئے اور زمین چھوٹی ہوگئی۔ آبادی بھی بڑھ گئی مگر روٹی تو انسان پہلے بھی کماتا تھا ، اُس وقت بھی آسانی سے میسّر نہیں آتی تھی۔ کاسۂ گدائی تو اُس وقت بھی بہت لوگوں کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ اس سے پہلے بھی طالبِ علم اور ودھیارتی مانگ کر کھانا کھاتے تھے اور علم کی طلب میں اپنی ذات کو بھی بھول گئے تھے۔ مختصر یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، اتنے بڑے پیمانے پر، کہ انسان اپنی روٹی اور آسائش دوسروں کی تخریب میں سمجھے۔ آلاتِ حرب اور گولہ بارود بیچنے کے لیے منڈیاں ڈھونڈنے کی کوشش میں زمین کے کُرے کو آگ کا گولہ بنادے۔ سارا انسانی شعور اور تہذیبی ورثہ بالائے طاق رکھ کر حیوانی جبلت اتنی حاوی کرلے کہ بربریت کی پچھلی ساری مثالیں پھیکی پڑ جائیں۔ تمام اخلاقی قوانین لبادے کی طرح استعمال ہونے لگیں۔ ضرورت ہوئی تو پہن لیا نہ ضرورت ہوئی اتار کر پھینک دیا۔ اور بس ۔
اب بار بار سوچنا پڑتا ہے لبنان ، فلسطین ، لنکا، افغانستان ، جنوبی افریقہ، ہندوستان ، پاکستان کو واقعی ایسے مسائل درپیش ہیں جن کا حل نہیں یا یہ بدامنی ، گولہ بارود اور کوکین بیچنے والے دلالوں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں اور اگر ان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں تو ان کے خریداروں کی عقل کو کیا ہوا؟ حب الوطنوں اور پیغمبروں کی ساری محنت ہی برباد ہوگئی۔‘‘(۱)
اختر الایمان نے اپنی نظموں میں ان خیالات کو تمام تر فنی لوازمات کے ساتھ برتا ہے۔ مثال کے طور پر اُن کی نظم ’’کفّارہ‘‘ ملاحظہ ہو:
اس جہاں میں بارہا آیا ہوں میں
طے نہیں پایا ابھی تک کیا ہوں میں
رینگتے پھرنا زمیں پر اور کبھی پرواز میں
جلوہ گر ہوتا رہا ہوں مختلف انداز میں
خار و خس میں سبزہ و گل میں کبھی
برگِ نے میں سرو و سنبل میں کبھی
خاک سے اُٹھ کر بگولوں میں اُڑا پھرتا رہا
مینہ بن کر بادلوں سے خاک پر بَرسا کیا
وسعتِ صحرا میں سورج کی تپش سہتا رہا
پانیوں میں تیز رو دریاؤں کے بہتا رہا
ہر طرح کے رنگ میں رَمتا رہا، آیا گیا
ہر نئی صورت میں میری ذات جاں افزا ہوئی
آدمی کی شکل میں آیا زمیں رُسوا ہوئی
مذکورہ نظم ایک طنز آمیز احتجاج ہے۔ نظم میں زندگی کے اسرار سے پردہ اٹھانے کوشش نظر آتی ہے۔ نظم ایک ایسے اسرار یا Mysteryکی صورت آگے بڑھتی ہے جس کا پردہ آخری مصرعے میں اٹھتا ہے۔اختر الایمان کی شاعری ایک پراسرار تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے، یہ بھی ایک اسرار ہے جومسائل پر تاثرات تو عطا کرتی ہے ، مسائل پیش نہیں کرتی۔اختر الایمان کی اس نظم میں ’’شعریت‘‘ کا فقدان ہے، بظاہر شخصیت جتنی بے چین نظر آ رہی ہے، داخلی طور پر اتنی بے چین اور مضطرب نہیں ہے۔ اختر الایمان نے بارہا کہا ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر نظموں میں روکھا پن رکھا ہے۔ مثلاً:
’’ جب میں شاعری میں کھردرے پن کا ذکر کرتا ہوں تو اس کا مطلب اخباری زبان نہیں ہوتا۔ کلامِ موزوں بھی نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہوتا ہے بندھے ٹکے مروجہ استعارے اور تشبیہات، بیان کے پیش افتادہ انداز اور مضامین سے گریز۔‘‘(۲)
یہی کھردرا پن اختر الایمان کی شاعری کی پہچان ہے۔مذکورہ نظم ہی طرح کھردری اور تلخ حقیقتوں اور معاشرتی اور نفسیاتی ہیجانوں کو اپنے جذبہ اور احساس اور وجدان سے ہم آہنگ کر کے اختر الایمان نے مزید کئی خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ ایک لڑکا، آگہی ، خمیر ، پگڈنڈی ، بنتِ لمحات، اتفاق ، بے تعلقی ، اظہار، جمود،اور اب سوچتے ہیں وغیرہ اختر الایمان کے شعری اسلوب کی نمائندہ نظمیں ہیں۔
فراق گورکھپوی نے اختر الایمان کی شاعری کو خون کی دھار میں ڈوبی ہوئی شاعری کہا تھا۔ لیکن خود اختر الایمان اپنے تصور شعر کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ ’’جہاں تک انسپریشن کا تعلق ہے وہ ہر تخلیق کے لیے ضروری ہے۔ شاہنامہ یا ڈیوائن کامیڈی بھی انسپریشن کے تحت لکھی گئی ہیں۔ لیکن اس کے لکھنے والوں نے پلاننگ بھی کی ہے۔بعض بعض مرتبہ ایک نظم کی تکمیل میں دس دس بارہ بارہ سال لگ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے عرصے وہی انسپریشن شاعر پر طاری نہیں ہوتا بلکہ اس انسپریشن کے تحت جو مواد شاعر لانا چاہتا ہے اس کو ایک روپ دینے کے لیے اسے محنت اور کاوش کرنی پڑتی ہے۔‘‘(۳) اختر الایمان کی شاعری کا بہ غور مشاہدہ کرنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں آمد و آورد کی حصہ داری قریب قریب برابر ہے۔ ان کی نظم کی لسانی اعتبار سے امتیازی خصوصیت اس کا اختصار اور کفایت ہے۔ لفظوں کے غیر ضروری اجتماع سے پرہیز اختر الایمان کے تخیلی و شعری تجربے کو ممیز و محکم کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ اُن کی ایک نظم ’’اور اب سوچتے ہیں ‘‘اس کی عمدہ مثال ہے۔ یہ مختصر سی نظم کچھ یوں ہے:
دور تھی منزلِ مقصود مگر چلتے رہے
ہفت خواں طے کئے ظلمات سے گزرے ، بھٹکے
وسعتِ دشت تمنا میں سراسیمہ ، زبوں ، آبلہ پا
رات دن چلتے رہے ایک لگن دل میں لیے
راہ کی گرد چھٹے کرب سے مل جائے نجات
عمر کے موڑ پہ آئے تو شش و پنج میں ہیں
اور اب سوچتے ہیں منزل مقصود تھی کیا؟
سات مصرعوں کی یہ مختصر سی نظم شعری و معنوی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ نظم اپنے پہلے ہی مصرعے سے حرکت و عمل اور ایک مسلسل سفر کی سرگزشت بیان کررہی ہے۔لیکن اس میں تہہ داری اور پراسراریت بھی ہے۔ مثلاً نظم کا بیان کنندہ واحد متکلم کون ہے؟ آیا وہ کارواں کا حصہ ہے؟ یا خود میرِکارواں ہے۔ نظم میں مصرعے کی لسانی ساخت کچھ اس طرح ترتیب دی گئی ہے کہ یہ بھی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ سفر ماضی میں ہوچکا ہے ، جس کی اب روداد بیان کی جارہی ہے۔ یہ لسانی ساخت قاری کے ذہن میں یہ بھی تاثر پیدا کرتی ہے کہ یہ سفر پوری تندہی ، لگن اور محنت کے ساتھ جاری ہے۔ معنی کی ایسی ہی کثیر الجہتی اختر الایمان کے فن کا اعجاز ہے۔
پہلے مصرعے کے بعد کے دو مصرعے سفر کی جزئیات و تفصیلات پیش کرتے ہیں۔ ان مصرعوں کی بنت کچھ اس طرح رکھی گئی ہے کہ سفر کی اذیتیں ، صعوبتیں اور جذبے کا غیر معمولی پن قاری کے ذہن میں نقش ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ان مصرعوں میں پیش کیے گئے تلمیحات و استعارے اور رمز و علائم اردو شاعری میں ایک زمانے سے برتے جارہے ہیں ، لیکن اختر الایمان نے یہاں ان کو اس فنکاری سے مرتب کیا ہے کہ یہ نظم کی روانی اور معنویت میں اضافہ کررہے ہیں۔ ہفت خواں، ظلمات ، وسعتِ دشتِ تمنا، سراسیمہ، زبوں ، آبلہ پا۔ یہ سارے الفاظ نہ صرف کلاسیکی لفظیات کی یاد تازہ کرتے ہیں بلکہ قاری کو ایک طرح کے داستانوی ماحول کی سیر بھی کراتے ہیں۔ لہٰذا پہلے مصرعے میں جس مسلسل سفر کا ذکر کیا گیا ہے یہ داستانوی ماحول اس سفر کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے۔
اس کے بعد کے مصرعوں سے نظم ایک نیا موڑ لیتی ہے اور کسی قدر مبہم اشاروں کے ذریعے شاعر قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ جہد مسلسل کا یہ سفر خارج کا سفر نہیں بلکہ ایک نوع کا باطنی سفر ہے۔ حالانکہ ان مصرعوں کی ظاہری قرأت اس امر کی طرف دلالت نہیں کرتی اور مذکورہ مصرعے :
رات دن چلتے رہے ایک لگن دل میں لیے
راہ کی گرد چھٹے ، کرب سے مل جائے نجات
اپنے قبل کے مصرعوں کا تسلسل ہی معلوم ہوتے ہی لیکن غور کرنے پر احساس ہوتا ہے کہ شاعر اب خارج سے باطن کی طرف مراجعت کررہا ہے۔ ایک طرح سے دیکھیں تو یہاں اختر الایمان نے قصیدے کے اہم جُز گریز سے استفادہ کیا ہے اور ان مصرعوں کے ذریعے بڑی فنکاری سے انھوں نے نظم کو خارج سے باطن کی طرف موڑدیاہے۔ ان دونوں مصرعوں میں بنیادی لفظ ’’کرب‘‘ ہے جو باطن کی طرف ہلکا سا اشارہ کررہا ہے وگرنہ ظاہری پریشانی و مصائب کے لیے دکھ ، درد، آلام وغیرہ سامنے کے الفاظ تھے۔
اس مصرعے کے فوراً بعد شاعر کہتا ہے:
عمر کے موڑ پہ آئے تو شش و پنج میں ہیں
یہاں نظم پوری طرح خارج سے باطن کی دنیا میں داخل ہوگئی ہے ، اور شاعر کا یہ مسلسل سفر انسانی زندگی کا استعارہ بن کر ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ نظم میں بیان کردہ زندگی کا پورا سفر جس میں کیا کیا مراحل سر کیے گئے اور زندگی کو برتنے کے لیے کیا کیا مراحل طے کیے گئے ، عمر کے ایک موڑ پر رُک کے غور کیا جائے تو شش و پنج کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور بے ساختہ یہ مصرع وارد ہوتا ہے:
اور اب سوچتے ہیں منزل مقصود تھی کیا
گویا زندگی کی یہ ساری تگ و دو ، یہ سارے مرحلے جسے انسان بڑی محنت و مشقت سے سر کرتا ہے۔ زندگی کے ایک موڑ پر یہ ساری نہیں تو ان میں سے بیشتر باتیں کارِ عبث معلوم ہوتی ہیں اور زندگی ایک سوالیہ نشان بن کر انسان کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔
اختر الایمان کا شعری رویہ اسی طرح زندگی ، وقت ، کائنات اور اسرارِ کائنات کو حوالہ بناتا ہے اور قاری کے ذہن میں سوالات کا کبھی نہ ختم ہونے والا ایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ جاتا ہے۔ شاید غالب کے بعد اختر الایمان ہی وہ شاعر ہیں جو زندگی اور اس کے علائم سے متعلق بہت زیادہ سوالات قائم کرتے ہیں۔ سوال و جستجو سے بھری اختر الایمان کی یہی نظمیں جدید اردو نظم کے لیے میل کا پتھر ثابت ہورہی ہیں۔
nvn
حواشی:
۱۔ دیباچہ برائے شعری مجموعہ ’’زمین زمین ‘‘، از: اختر الایمان ۔ ص: ۲۱
۲۔دیباچہ برائے شعری مجموعہ ’’زمین زمین ‘‘، از: اختر الایمان ۔ ص: ۲۹
۳۔ نئی نظم ۔ مرتب : زبیر رضوی ۔ ص: ۳۴

Back to Conversion Tool

7 comments:

  1. بہت خوب جناب قمر صدیقی صاحب! آپ کی بیشتر تحاریر میں اسی بلاگ پر پڑھ چکا ہوں ـ

    ReplyDelete
  2. بہت خوب جناب قمر صدیقی صاحب! آپ کی بیشتر تحاریر میں اسی بلاگ پر پڑھ چکا ہوں ـ

    ReplyDelete
  3. بہت عمدہ تجزیہ ہے.... شکریہ

    ReplyDelete
  4. The king casino - CommunityKahabar
    The king casino. Play for free slots. Free coins. Free 카지노 slots. Best tournaments. 1xbet Roulette. Poker. 더킹카지노 Blackjack. Baccarat. More games.

    ReplyDelete